فتوی نمبر :
39444
| تاریخ :
فتوی نمبر : 39444
خلع لینے کا شرعی طریقہ کار
معاملات / احکام طلاق / خلع
خلع لینے کا شرعی طریقہ کار
السلام علیکم! دین میں خلع اور طلاق کی حیثیت الگ ہے، ’’سندس‘‘ کو خلع چاہئے، درست خلع نامہ کا خاکہ چاہئے کورٹ سے باہر صلح کیلئے، طلاق نامہ الگ ہوتا ہے، وہ نہیں چاہئے کہ جس پر تین طلاق لکھا ہوا ہے، ان دونوں کی شرعی حیثیت پر بھی رہنمائی فرمادیں۔
الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً
اولاً تو سائلہ کو چاہئے کہ خلع لینے میں جلد بازی سے کام لینے کی بجائے باہمی اختلافات و تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرے، تاہم اگر کوشش کے باوجود نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہوسکے، تو ایسی صورت میں سائلہ کیلئے اپنے شوہر سے خلع لینے کی بھی گنجائش ہے۔
جس کا طریقہ یہ ہے کہ سائلہ کسی اسٹامپ پیپر وغیرہ پریہ تحریر لکھے کہ ’’میں حق مہر یا کچھ مال (جو طے ہوجائے) کے عوض اپنے شوہر سے خلع چاہتی ہوں‘‘ اور اس کے بعد شوہر یہ تحریر کرے کہ ’’میں حق مہر کی معافی وغیرہ کے عوض اپنی بیوی کو خلع دیتا ہوں‘‘، اور اس پر دو مردوں کو گواہ بھی بنادیا جائے، چنانچہ اس طرح کرنے سے سائلہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، جس کے بعد عدت گزار کر وہ اپنی مرضی سے کسی بھی جگہ عقدِ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
کما فی احکام القرآن للجصاص: قال أصحابنا إنہما لا یجوز خلعہما إلا برضی الزوجین فقال أصحابنا لیس للحکمین أن یفرقا إلا برضی الزوجین لأن الحاکم لا یملک ذلک فکیف یملکہ الحکمان وإنما الحکمان وکیلان لہما أحدہما وکیل المرأۃ والأخر وکیل الزوج فی الخلع (الی قولہ) وکیف یجوز للحکمین أن یخلعا بغیر رضاہ ویخرجا المال عن ملکہا۔ اھـ (ج۳، ص۱۵۳)۔
وفی التاتارخانیۃ: الخلع عقد یفتقر الی الایجاب والقبول یثبت الفرقۃ ویستحق علیہا العوض۔ اھـ (ج۳، ص۶۵۳)۔
وفی البدائع: أما الأول فقد اختلف فی ماہیۃ الخلع قال أصحابنا: ہو طلاق وہو مروی عن عمر و عثمان – رضی اللہ عنہما – (الی قولہ) وفائدۃ الاختلاف أنہ إذا خالع امرأتہ ثم تزوجہا تعود إلیہ بطلاقین عندنا۔ اھـ (ج۳، ص۱۴۴)۔
وفیہ ایضًا: وأما رکنہ فہو الإیجاب والقبول؛ لأنہ عقد علی الطلاق بعوض فلا تقع الفرقۃ، ولا یستحق العوض بدون القبول۔ اھـ (ج۳، ص۱۴۵)۔
وفی الدر المختار: (ولا بأس بہ عند الحاجۃ) للشقاق بعدم الوفاق (بما یصلح للمہر) (الی قولہ) (و) حکمہ أن (الواقع بہ) ولو بلا مال (وبالطلاق) الصریح (علی مال طلاق بائن) وثمرتہ فیما لو بطل البدل کما سیجيء (و) الخلع (ہو من الکنایات فیعتبر فیہ ما یعتبر فیہا) من قرائن الطلاق۔ اھـ (ج۳، ص۴۴۴)۔ واللہ اعلم بالصواب