کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عبد الرحیم (عرف در رحیم) ولد حنظلہ کی زمین کے تینوں اطراف( یعنی مغرب ، جنوب، شمال) کی جانب گل صواد شاہ کی زمین ہے، عبد الرحیم کی زمین میں پانی نہیں ہے، وہ پانی لینے کیلئے ہماری زمین پہ آتا ہے، اسلئے کہ پانی کا چشمہ ہماری زمین میں ہے، اسی طرح ہمارا راستہ ان کی زمین پر پہلے سے طے شدہ ہے، میرا عبدالرحیم سے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنی زمین بیچنا چاہو تو میں حق شفعہ کی وجہ سے خریدوں گا، اسی طرح آپ سالانہ اُجرت پر کسی کو دینا چاہو تو بھی میں لوں گا، کسی اور کو نہیں دینا ، جبکہ وہ یہ زمین کسی اور کو دینا چاہتا ہے، اب شریعت کی روشنی میں میرا یہ مطالبہ درست ہے یا نہیں ؟
واضح ہو کہ نفسِ زمین یا زمین کے حقوق میں شریک یا پڑوسی کیلئےشرعاً شفعہ کا حق اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ زمین فروخت کردی جائے، البتہ اگر زمین فروخت نہ کی جائے، بلکہ کچھ مدت کیلئے اُجرت (کرایہ) پر دی جائے تو ایسی صورت میں شرعاً شفعہ کا حق ثابت نہیں ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں مسمیٰ عبد الرحیم ولد حنظلہ اگر اپنی زمین کسی کو اُجرت پر دیدے تو ایسی صورت میں سائل مسمیٰ گل صواد شاہ کو شرعاً زمین کے مالک مسمیٰ عبد الرحیم یا زمین کو کرایہ پر لینے والے کے خلاف کسی دعویٰ کا حق ثابت نہ ہوگا، لہذا اس سے احتراز لازم ہے، تاہم اگر مسمیٰ عبد الرحیم ولد حنظلہ کسی وقت اپنی مذکور زمین فروخت کر دے اور اس وقت سائل مسمیٰ گل صواد شاہ کی زمین مسمیٰ عبد الرحیم ولد حنظلہ کی زمین کے ساتھ متصل ہو یا دونوں زمین کے حقوق میں شریک ہوں تو ایسی صورت میں سائل کو شفعہ کا حق حاصل ہوگا۔
کما فی الھدایۃ: و الشفعۃ تجب بعقد البیع و معناہ بعدہ۔اھ (ج:4/ص:389)
و فی الدر المختار: (تجب) له لا عليه (بعد البيع)۔۔۔۔۔(ويملك بالأخذ بالتراضي أو بقضاء القاضي۔۔۔۔۔(بقدر رؤوس الشفعاء لا الملك) خلافا للشافعي (للخليط۔۔۔۔۔في نفس المبيع، ثم)۔۔۔۔۔(له في حق المبيع) وهو الذي قاسم وبقيت له شركة في حق العقار (كالشرب والطريق خاصين)۔۔۔۔۔(كشرب نهر) صغير (لا تجري فيه السفن وطريق لا ينفذ) فلو عامين لا شفعة بهما، (و فی الرد) قولہ وطريق لا ينفذ۔۔۔۔۔والمراد بعدم النفاذ أن يكون بحيث يمنع أهله من أن يستطرقه غيرهم۔اھ (ج:6/ص:219)