کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک گورنمنٹ ملازم ہوں، میری تنخواہ سے ماہانہ ایک مخصوص رقم کٹتی ہے اور ہمیں گورنمنٹ اس مجموعی رقم پر دس سے پندرہ فیصد تک سود ملا کر وہ رقم ہماری بڑھ جاتی ہے اور آخر میں ہمیں ریٹا ئر ہوتے وقت وہ رقم بمعہ گورنمنٹ والے سود کے مل جاتی ہے ۔
(۱) آپ سے سوال ہے کہ آیا یہ سود ہمیں لینا چاہیئے یا نہیں؟
(۲) اگر ہمیں گورنمنٹ اختیار دے کہ آپکی مرضی ہے کہ آپ یہ سود لیں یا نہ لیں، تو اس صورت میں وہ رقم جو ہماری کٹی ہے بمعہ سود کے لینی چاہیئے یا نہیں ؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام پر اضافی رقم دی جاتی ہےوہ اجرت (تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے، اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، البتہ اگر پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالر با بھی ہے اور ذریعۂ سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے، اس لئے اس سے اجتناب کیا جائے ۔
سونا قرض دے کر بعد میں کچھ کی ادائیگی کے لئے سونے اور بقیہ کی ادائیگی کے لئے نقد رقم کی شرط لگانا
یونیکوڈ سود 1