کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے سود پر قرض لے کر گاڑیاں خریدیں اور اس سے جائز کاروبار شروع کیا۔ کیا اس کے کاروبار کا منافع جائز ہے یا ناجائز یعنی حلال ہے یا حرام؟
(۲) اگر کوئی آئندہ کے لئے توبہ کرلے تو اس کا روبار کے متعلق کیا حکم ہے؟ آیا اسکاروبار کو ختم کر دے اور گاڑیاں بیجچ دے؟ اور پھر اس پیسے کے متعلق کیا حکم ہوگا جو گاڑیاں بیچ کر حاصل کیے گئے ہیں؟
(۳) سود پر قرض لے کر گھر خریدنا جائز ہے یا ناجائز؟ اگر کسی نے سود پر قرض لے کر گھر خریدا ہو تو اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟
(۴) اگر خاوند سودی قرض لینے پر بضد رہے۔ جبکہ بیوی ایسا نہ چاہتی ہو تو کیا وہ بھی گناہ میں برابر کی شریک ہوگی اور آخرت میں جوابدہ ہوگی ؟ مذکورہ بالا صورت کا جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
سود پر قرض لینا اور اس کے ذریعہ کاروبار کرنا جائز نہیں، حرام ہے، تاہم اگر کسی نے لا علمی یا بے پرواہی میں سودی قرضہ لے کر جائز کارو بارسے نفع کمایا ہے تو اس کو استعمال کرنے کی گنجائش بھی ہے، یہی حکم سودی قرض لے کر مکان تعمیر کرنے کا بھی ہے۔ جبکہ منع کرنے کے باوجود اگر شوہر مذکور طریقہ سے معاملہ کرے تو اس کے اس ناجائز عمل کی وجہ سے بیوی گناہ گار نہیں ہوگی ۔ تاہم شوہر پر لازم ہے کہ اپنے ان ناجائز معا ملے پر توبہ واستغفار اور آئندہ کے لئے ان سے مکمل احتراز بھی کرے۔ ورنہ بروزِ قیامت سخت مواخذہ ہوگا۔
سونا قرض دے کر بعد میں کچھ کی ادائیگی کے لئے سونے اور بقیہ کی ادائیگی کے لئے نقد رقم کی شرط لگانا
یونیکوڈ سود 1