 
                    	کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بغل اور زیرِ ناف بالوں کی صفائی کا صحیح مسنون طریقہ بمع حدود کے کیا ہے  اور کتنے ایام کے بعد ؟ پوری تشریح مطلوب ہے ، نیز اس کی بھی وضاحت کریں کہ زیرِ ناف کے بالوں میں دبر کے بال بھی شامل ہیں یا نہیں؟
 	واضح ہو کہ ہفتہ میں ایک دفعہ اپنے بدن کی صفائی (جس میں بغلوں کے بال ، مونچھیں اور زیرِ ناف کے بال بھی شامل ہیں ان کا صاف) کرنا مستحب ہے ، اگر اس میں نہ ہوسکے تو پندرہ دن میں ایک دفعہ ، اگر پندرہ دن میں بھی نہ ہوسکے تو بوقتِ مجبوری چالیس دن تک کی گنجائش ہے چالیس (۴۰) دن سے زیادہ دن تک بغیر صفائی کے رہنے کی قطعاً گنجائش نہیں ، اس سے زیادہ  بغیر صفائی کے رہنے میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔
	پھر بغل کے بالوں کو مونڈنا بھی جائز ہے البتہ اگر اکھیڑنے کی فرصت یا طاقت ہو تو پھر اُکھیڑنا افضل ہے، اور زیر ناف بالوں کو مونڈنا چاہئے اور ان کی حدود یہ ہیں کہ ناف کے نیچے جہاں پیٹ کی شکن پڑتی ہے یعنی اکڑوں بیٹھنے کی صورت میں جو بَل سا بنتا ہے وہاں سے عانہ کی حد شروع ہوتی ہے، لہٰذا اس جگہ پر اُگنے والے بال دونوں رانوں تک ، آلۂ تناسل کے ارد گرد اور خصیتین کے بال اور خصیتین کے نیچے کے بال نیز پاخانہ کے مقام اور اس کے اردگرد کے بال ’’موئے زیرِ ناف‘‘ میں شامل ہیں اور اس تفصیل کے مطابق اس پورے حصے کے بال بقدر الامکان صاف کرنا ضروری ہے۔
	ناف سے متصل اور پیٹ کی شکن کے اوپر کے بال ’’موئے زیرِ ناف‘‘ میں شامل نہیں، اور اسی طرح دونوں رانوں کے بال بھی موئے زیرِ ناف کے حکم میں شامل نہیں ہیں۔ 
 فی الدر المختار : و یستحب حلق عانتہ و تنظیف بدنہ بالاغتسال فی کل أسبوع مرۃً و الأفضل یوم الجمعۃ و جاز فی کل خمسۃ عشرۃ و کرہ ترکہ وراء الأربعین مجتبیٰ۔
و قال العلامۃ الشامیؒ فی رد المحتار تحت قولہ و یستحب حلق عانتہ الخ : قال فی الھندیۃ و یبتدیٔ من تحت السرۃ و لو عالج بالنورۃ یجوز کذا فی الغرائب و فی الأشباہ و السنۃ فی عانۃ المرأۃ النتف (قولہ و تنظیف بدنہ) بنحو إزالۃ الشعر من ابطیہ و یجوز فیہ الحلق ، و النتف أولٰی۔ اھـ (ج۶،ص۴۰۵)۔
و فی الدر ایضًا : و کذا یستحب لمرید الإحرام إزالۃ ظفرہ و شاربہ و عانتہ و حلق رأسہ إن اعتادہ و إلا فیسرحہ۔اھـ
و قال فی رد المحتار : و کذا نتف الإبط و العانۃ الشعر القریب من فرج الرجل و المرأۃ و مثلھا شعر الدبر بل ہو أولٰی بالإزالۃ لئلا یتعلق بہ شئی من الخارج عند الاستنجاء بالحجر۔ اھـ (ج۲،ص۴۸۱)۔