 
                    کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بارہ ربیع الاول کے دن چندہ جمع کرکے کچھ پکا کر ثواب کی نیت سے غریبوں میں تقسیم کرنا، جبکہ چندہ بلاتمیز ہر طبقہ کے لوگوں سے لیا جاتا ہے ، کیا دینِ محمدی میں اس کی کوئی اصل ہے ؟ اور رائج رسومات کی کیا حیثیت ہے ؟ (جائز ہیں یا ناجائز ؟) قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے چندہ کرکے غریبوں میں تقسیم کرے تو یہ فی نفسہ جائز ہے اور موجبِ اجر و ثواب بھی ہے ، البتہ اس ثواب کے کام کیلئے کسی دن اور تاریخ کی تخصیص کرنا اور اسے زیادہ باعثِ ثواب سمجھ کر کرنا بے دلیل ہونے کی بناء پر بدعت ہے ، جس سے احتراز لازم ہے ، خصوصاً جبکہ اس رقم کو اس مخصوص دن سے متعلق غلط قسم کی رسومات پرلگایا جائے تو اس سے اس کی شناعت اور قباحت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس صورت میں اس سے احتراز بھی لازم ہوجاتا ہے۔
 فی صحيح البخاري : و قال النبي صلى الله عليه وسلم : «من أخذ أموال الناس يريد إتلافها ، أتلفه الله» إلا أن يكون معروفا بالصبر ، فيؤثر على نفسه و لو كان به خصاصة «كفعل أبي بكر رضي الله عنه » حين تصدق بماله «و كذلك آثر الأنصار المهاجرين و نهى النبي صلى الله عليه و سلم عن إضاعة المال» فليس له أن يضيع أموال الناس بعلة الصدقة "اھ(2/ 112)۔
و فی مرقاة المفاتيح : و في رواية لمسلم : (من عمل عملا) أي من أتى بشيء من الطاعات أو بشيء من الأعمال الدنيوية و الأخروية سواء كان محدثا أو سابقا على الأمر ليس عليه أمرنا ، أي : و كان من صفته أنه ليس عليه إذننا بل أتى به على حسب هواه فهو رد . أي : مردود غير مقبول اھ(1/ 222)۔
 
جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا نا جائز ہے تو صد سالہ جشنِ دیوبند منانا کیوں جائز ہے
یونیکوڈ عرس و میلاد 0