السلام علیکم ورحمۃ اللہ! مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں اس بارے میں کہ مسجد یا مدرسہ کے سامان مثلاً جنریٹر، پائپ، ہاتھ گاڑی، وغیرہ کو کرایہ پر دینا یا عاریۃً دینا از روئے شریعت کیسا ہے؟
مسجد یا مدرسہ کیلئے وقف شدہ سامان (جنریٹر، پائپ وغیرہ) کسی شخص کو ذاتی استعمال کیلئے بلا کسی عوض عاریت کے طور پر دینا جائزنہیں البتہ متولی کیلئے ان اشیاء کو اجرتِ مثل (رائج کرایہ) پر دےکر حاصل شدہ کرایہ مسجد کے مصارف میں خرچ کرنا جائز ہے۔
وفی البحر الرائق: ثم رأيت في رسالة العلامة قنلي زاده أن في مسألة زيادة أجر المثل زيادة فاحشة بزيادة الرغبات اختلف المشايخ ففي رواية شرح الطحاوي تفسخ الإجارة السابقة لأن الإجارة تنعقد شيئا فشيئا والوقف يجب له النظر وفي رواية فتاوى أهل سمرقند لا تفسخ قال والنقول على ما ذكرنا كثيرة ثم قال بعد سرد النقول من الطرفين فتحرر من هذه النقول أن إجارة الوقف إن كان بغبن فاحش لم تصح ابتداء وإن كان بأجر المثل أو بغبن يسير صحت. (ج۵، ص۲۵۶)۔
وایضا فیہ: وفی الخانیۃ من فصل إجارۃ الوقف المتولی إذا أجر الوقف بشیء من العروض والحیوان بعینہ قیل: بانہ یجوز بلا خلاف. (ج۷، ص۱۶۸)۔
وفی الاختیار لتعلیل المختار: ولا یجوز إعارۃ الوقف وإسکانہ لأن فیہ إبطال حق الفقراء۔ (ص۴۷۳)۔ واللہ اعلم بالصواب