۱۔ ایک مسجد کا ضرورت سے زائد سامان، قرآن مجید، پُرانے سپیکر، پنکھے وغیرہ دوسری مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟
۲۔ ۵۰، ۶۰ سال پرانی مسجد جو انتہائی خستحال ہو گئی ہو، جبکہ متبادل نئی مسجد تعمیر کر لی گئی ہو، اس کی جگہ کا حکم کیا ہے؟ اس کو کسی دوسرے استعمال میں لا سکتے ہیں؟ مثلاً سٹور، پارکنگ، دفتر وغیرہ ۔
کسی مسجد کا سامان لاؤڈ اسپیکر وغیرہ اگر ضرورت سے زیادہ ہو اور استعمال کرنے کی نوبت نہ آتی ہو اور سامان کے پڑے رہنے سے ضائع ہونے کا خطرہ ہو، تو اس صورت میں مذکور سامان کسی دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ مذکور پرانی مسجد کی زمین کو کسی چیز جیسے سٹور، پارکنگ، دفتر اور دکان وغیرہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، جس سے احتراز لازم ہے، بلکہ اس مسجد کو بھی آباد رکھنے کی کوشش کی جائے، اور اہلِ محلہ میں سے چند افراد اسی مسجد میں نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں، جبکہ نئی مسجد کی وجہ سے پرانی مسجد کو بالکلیہ ویران کر دینا بھی درست نہیں۔
ففی الدر المختار: (ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي اھ (4/ 358)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي اھ (4/ 358)
وفی حاشية ابن عابدين: (ومثله) في الخلاف المذكور (حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه) تفريع على قولهما اھ (4/ 359)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله: إلى أقرب مسجد أو رباط إلخ) لف ونشر مرتب وظاهره أنه لا يجوز صرف وقف مسجد خرب إلى حوض وعكسه وفي شرح الملتقى يصرف وقفها لأقرب مجانس لها. اهـ (4/ 359)