السلام علیکم مسجد خود اور مسجد کو دی گئی ہر چیز وقف للہ ہے؟
مسجد کی وقف کمیٹی محلے کے مسلمانوں کے وسیع مفاد میں مسجد بھی بیچ سکتی ہے اور مسجد کی زمین بھی اور مسجد کی پرانی ناقابل استعمال اشیاء تاکہ بڑی مسجد بنائی جاسکے؟ مسجد کی پرانی اشیاء، پنکھے، موٹریں جنریٹر، گھڑیاں، الماریاں، ملبہ، سریہ، وغیرہ فروخت کرکے نئی اشیاء خریدی جاسکتی ہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد قیامت تک مسجد رہتی ہے، جگہ تبدیل نہیں کی جاسکتی؟ لیکن قرآن اور کسی صحیح حدیث میں اس کی دلیل نہیں ملتی؟ بس اس کے لیے واحد شرط یہی ہے کہ فروخت کردہ زمین، مسجد اور اشیاء کی رقم نئی مسجد یا دوسری مسجد کے لیے استعمال کی جائے، کیوں کہ مسجد کو چندہ دینے والے نے اللہ کے گھر کی تعمیر وتزئین کے لیے ہی چندہ دیا تھا؟ واللہ اعلم بالصواب
مسجد بنانا صدقہ جاریہ کی ایک صورت ہے، اس کی جگہ وقف ہونے کے بعد وہ بندے کے حق اور ملکیت سے نکل کر خالصۃ اللہ تعالیٰ کے حق اور دائمی ملک میں چلی جاتی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے ’’وان المساجد للہ فلا تدعو‘‘ (ترجمہ) ’’بیشک مسجدیں اللہ ہی کیلئے ہیں‘‘۔
جس طرح اس میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا منع ہے، اسی طرح از روئے حدیث اس میں دیگر مالکانہ تصرفات، مثلاً اس کی خرید وفروخت، اس کا کسی کو ہبہ کرنا، اور اس میں واقف کے رشتہ داروں کا وارث بننا وغیرہ تمام تصرفات ممنوع ہیں، صحیحین کی روایت ہے کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں اپنا مال جو کھجور کے باغ کی صورت میں تھا اور ثمغ کے نام سے مشہور تھا صدقہ جاریہ کرنا چاہا تو عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول مجھے مال ملا ہے جو میرے نزدیک نفیس اور عمدہ ہے، میں اسے صدقہ کرنا چاہتاہوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے اصل کو صدقہ (وقف) کردو پھر اس کو نہ بیچا جاسکے گا نہ ہی اس میں میراث جاری ہوگی، اور نہ ہی ہبہ ہوسکے گا، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جاسکے گا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس طریقہ سے اسے صدقہ اور وقف کردیا۔
مذکور قرآنی آیت اور صحیح حدیث سے واضح ہوا کہ مسجد اللہ کی دائمی ملک میں چلی جانے سے اس میں دوام آجاتا ہے، جو تا قیام قیامت باقی رہتاہے، لہٰذا بعض مخصوص صورتوں کے علاوہ مسجد کی جگہ تبدیل کرنا یا اس کو بیچ کر دوسری بڑی جگہ لے کر مسجد بنانا درست نہیں البتہ آلات المسجد (سامان جیسے الماریاں پنکھے،، جنریٹر وغیرہ جن کا مسجد کی تعمیر میں عمل دخل نہیں ہوتا اس کی اس مسجد کو اگر ضرورت نہ ہو تو اس کو واقف یا متولی کے علم میں لاکر کسی دوسری قریبی مسجد میں متنقل کیا جاسکتاہے، اسی طرح اس کو بیچ کر اس کی قیمت اسی مسجد کی دیگر ضروریات میں بھی صرف کی جاسکتی ہے۔
البتہ انقاضِ مسجد (سریہ، سیمنٹ، گارڈر وغیرہ) جو مسجد کی تعمیر میں استعمال کی جاتی ہیں، ان کا حکم یہ ہے کہ جب تک وہ مسجد آباد رہے، انہیں کسی دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز نہیں، بلکہ یا تو وہ سامان بعینہ اسی مسجد میں استعمال کیا جائے گا، یا اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد کی دیگر ضروریات میں صرف کی جائے۔
قال اللہ تعالٰی: (وان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا) (الجن: ۱۸)
وفی التفسیر الکبیر: وفی الآیۃ مسألتان: المسألۃ الأولٰی في أحکام المساجد وفیہ وجوہ الأول: في بیان فضل المساجد ویدل علیہ القرآن والأخبار والمعقول، أما القرآن فآیات، أحدہا: قولہ تعالٰی: وأن المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ أحدا (الجن: ۱۸) أضاف المساجد إلی ذاتہ بلام الاختصاص ثم أکدّ ذلک الاختصاص بقولہ: فلا تدعوا مع اللہ أحدا اھ (۱۳/ ۴)۔
وفی الدر المختار للعلامۃ الحصکفی الحنفی (متوفی: ۱۰۸۸): (ولو خرب ما حولہ واستغنی عنہ یبقی مسجدًا عند الإمام والثانی) أبدا إلی قیام الساعۃ (وبہ یفتي) حاوي القدسي اھ (۳۵۸/ ۴)۔
في صحیح البخاری: (۲۷۶۴) حدثنا ہارون بن الأشعث،، حدثنا أبو سعید مولی بني ہاشم، حدثنا صخر بن جویریۃ، عن نافع، عن ابن عمر رضی اللہ عنہما أن عمر تصدق بنال لہ علی عہد رسول اللہﷺ، وکان یقال لہ ثمغ وکان نخلا، فقال عمر: یا رسول اللہ، إني استفدت مالا وہو عندي نفیس، فأردت أن أتصدق بہ، فقال النبیﷺ: تصدقہ بأصلہ، لا یباع ولا یوہب ولا یورث، ولکن ینفق ثمرہ، فتصدق بہ عمر، فصدقتہ تلک في سبیل اللہ وفي الرقاب والمساکین والضیف وابن السبیل ولذی القربی، ولا جناح علی من ولیہ أن یأکل منہ بالمعروف، أو یوکل صدیقہ غیر متمول بہ اھ (۱۰/ ۴، باب: وماللوصی أن یعمل في مال الیتیم)۔
في حاشیۃ ابن عابدین تحت (قولہ: ومثلہ حشیش المسجد) الزیلعی: وعلی ہذا حصیر المسجد وحشیشہ إذا استغنی عنہما یرجع اإلی مالکہ عند محمد وعند ابی یوسف ینقل إلی مسجد آخر، وعلی ہذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ینتفع بہا اھــ وصرح في الخانیۃ بأن الفتوی علی قول محمد قال في البحر: وبہ علم أن الفتوی علی قول محمد في آلات المسجد اھــ ( ۳۵۹/ ۴ ، فرع: بناء بیتا للإمام فوق المسجد)۔
في مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر لعبد الرحمٰن بن محمد بن سلیمان المدعو بشیخي زادہ، یعرف بد ا ماد أفندی (المتوفی: ۱۰۷۸ھـ): ونقض الوقف یصرف إلی عمارتہ ان احتاج والا حفظ الی وقت الحاجۃ وان تعذر صرف عینہ یباع ویصرف ثمنہ إلیہا اھـ (۲/ ۵۸۵)۔
وفي الفتاوی الشامیۃ لابن عابدین: الفتوی علی أن المسجد لا یعود میراثا ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلی مسجد آخر اھـ (۳۵۹/ ۴، فرع : بناء بیتا فوق المسجد)۔