کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارے شہر میں تقریباً (۵۰) پچاس ہزار کی آبادی ہے ، جس میں صرف دو مسجدیں تعمیر ہیں، جن میں سے ایک مسجد کہ اس میں پانچوں وقت نماز با جماعت اذان کے ساتھ ادا کی جاتی تھی ، ابھی چند سال پہلے وہاں ایک امام صاحب مقر ر ہوئے، جو کہ مستند عالم نہیں ہیں، اور اس نے کچھ عرصہ بعد اس مسجد کو محض تنگ ہونے کی بنا پر بیچ کر اس کی رقم سے دوسری جگہ اس سے بڑی مسجد تعمیر کرا دی، حالانکہ وہاں پر مستقل مسلم آبادی موجود ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکور امام صاحب کا یہ فعل شرعا جائز تھا، اور پہلے والی مسجد بدستور مسجد رہے گی، یا وہاں مکان وغیرہ تعمیر کر سکتے ہیں؟ جواب دے کر رہنمائی فرمائے ۔
واضح ہو کہ جب ایک جگہ مسجد تعمیر ہوگئی، اور وہاں با قاعدہ اذان اور باجماعت نماز ادا ہونے لگی، تو وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہی رہتی ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکور امام صاحب موصوف کا یہ عمل شرعاً جائز نہیں، جس کی وجہ سے وہ بہت سخت گناہ گار ہوئے ہیں، اس پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل پر بصدقِ دل تو بہ و استغفار کرے، جبکہ اس جگہ کو مسجد کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنا اب بھی جائز نہیں۔
کما في الدر المختار: لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن) اھ(4/ 352)۔
و في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر اھ (4/ 352)۔
وفيه ايضاً : قال في البحر: وبه علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد وعلى قول أبي يوسف في تأبيد المسجد اهـ (4/ 359)۔
و في الهداية شرح البداية: قال ومن اتخذ أرضه مسجدا لم يكن له أن يرجع فيه ولا يبيعه ولا يورث عنه لأنه تجرد عن حق العباد وصار خالصا لله وهذا لأن الأشياء كلها لله تعالى وإذا أسقط العبد ما ثبت له من الحق رجع إلى أصله فانقطع تصرفه عنه كما في الإعتاق ولو خرب ما حول المسجد واستغنى عنه يبقى مسجدا عند أبي يوسف لأنه إسقاط منه فلا يعود إلى ملكه اھ (3/ 20)۔