کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ : ایک قاری صاحب ایک مسجد میں بچوں کو پڑھاتے ہیں، لوگوں کے اصرار پر کبھی کبھار بچے ختم قرآن کے لیے بھیجے جاتے ہیں، قاری صاحب نے لوگوں کو منع کیا ہوا ہے کہ بچوں کو ختم قرآن کے موقع پر پیسے وغیرہ نہ دیا کریں، لیکن اس کے باوجود لوگ دے دیتے ہیں ،اور بچے وہ رقم لا کر قاری صاحب کے حوالہ کرتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ان رقوم کو مسجد کی ضروریات میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ حکم شرعی سے آگاہ فرمائیے۔ جزاکم اللہ
ختم قرآن (قرآن خوانی) اگر ایصال ثواب کے لیے ہو تو اس پر اجرت لینا جائز نہیں، البتہ قاری صاحب موصوف کی اجرت دینے کو بالکلیہ منع کرنے کے باوجود کوئی آدمی محض اللہ تعالی کی رضا کے لیے بچوں کو کچھ نہ کچھ دیدے ،یا مہمان کی حیثیت سے ان کو کچھ کھلا دے، تو اس میں حرج نہیں۔ جبکہ قرآن خوانی اگر میت کے ایصال ثواب کے لیے نہ ہو، بلکہ مکان و دکان وغیرہ کی خیر و برکت کے لیے کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں ختم قرآن کرانا شرعاً جائز اور درست ہے ،اور اس قسم کے مواقع پر قرآن خوانی کرانے والوں کا بچوں کو پیسے وغیرہ دینا بھی جائز اور درست ہے ، لہٰذا اس صورت میں اگر کوئی بچوں کو پیسے دیدے ،تو یہ ان کی ملک ہوں گے ، اب ان بچوں میں سے جو بالغ ہوں، اگر وہ اپنی مرضی و خوشی سے اپنی رقم مسجد کی ضروریات کے لیے دیدیں ،تو اس کا انہیں اختیار ہے، مگر بچوں پر پریشر ڈال کر اور جبر کر کے ان سے پیسے لینا اور مسجد وغیرہ کی ضروریات میں خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں، جس سے احتراز لازم ہے۔
ہاں ! اگر یہ رقم بچوں کے ذریعہ قاری صاحب کو یا مسجد میں خرچ کرنے کی صراحت کیساتھ دیدی جائے، تو اس صورت میں اس رقم کو ذاتی میں مصرف میں لانا یا مسجد کے اخراجات میں لگا نا شرعاً بھی جائز ہو گا۔
ففي مشكاة المصابيح: وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى (2/ 889)۔
وفي شرح النووي على مسلم: قوله صلى الله عليه و سلم ( خذوا منهم واضربوا لى بسهم معكم ) هذا تصريح بجواز أخذ الأجرة على الرقية بالفاتحة والذكر وأنها حلال لاكراهة فيها وكذا الأجرة على تعليم القرآن وهذا مذهب الشافعى ومالك وأحمد واسحاق وأبى ثور وآخرين من السلف ومن بعدهم ومنعها أبو حنيفة فى تعليم القرآن وأجازها فى الرقية وأما قوله صلى الله عليه و سلم واضربوا لى بسهم معكم وفى الرواية الأخرى اقسموا واضربوا لى بسهم معكم فهذه القسمة من باب المروءات والتبرعات ومواساة الأصحاب والرفاق والافجميع الشياه ملك للراقى مختصة به لاحق للباقين فيها عند التنازع فقاسمهم بترعا وجودا ومروءة وأما قوله صلى الله عليه و سلم واضربوا لي بسهم فإنما قاله تطييبا لقلوبهم ومبالغة في تعريفهم أنه حلال لا شبهة فيه وقد فعل رسول الله صلى الله عليه و سلم فى حديث العنبر وفى حديث أبى قتادة فى حمار الوحش مثله اھ (14/ 188)۔
وفي حاشية ابن عابدين: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ (6/ 56) واللہ اعلم بالصواب!