محترم و مکرم جناب مفتیانِ کرام السلام علیکم !
بعد از سلامِ مسنون گذارش ہے کہ کیا فرماتے ہیں علماءِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص اہلِ سنت و الجماعت حنفی دیوبند ی مسلک کا مسجد تعمیر کرتا ہے، لیکن تعمیرِ مسجد میں شخصِ موصوف مودودیوں سے تعاون لیتا ہے مالی صورت میں ، مثلاً چادریں ،چٹائیاں ،لاؤڈسپیکر وغیرہ بمعہ اس بات کے کہ شخصِ موصوف اپنے مسلک کو ، یعنی اہل سنت و الجماعت حنفی دیوبندی پر مودودیوں کی طرف سے اس تعاون کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہے، حتیٰ مودودی تعاون کے ساتھ ساتھ مسجد اور اہلِ مسجد کیلۓ اپنی طرف سے کوئی قاعدہ ضابطہ اور شرط نہیں لگاتے ،بلکہ صرف کسی مسلک کا ایک امام ہو اور اہلِ مسجد کے پانچ افراد متعین ہوں درخواست پیش کریں تو مسجد میں مودودیوں سے تعاون لینا جائز ہے کہ نہیں ؟ اگر جائز نہیں تو فقہ حنفی کا کونسا حکم لگتا ہےحرام،مکروہ وغیرہ میں سے ؟
مودودی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد اگر چہ جمہور کے مخالف آراء رکھنے اور انبیاءِ کرام وصحابۂ عظام سے متعلق اپنے مخصوص طرزِ عمل کی وجہ سے قابلِ نفرت ہیں اور ان سے مدد لینے میں اگر انتشار کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز بہتر ہے ۔
تاہم یہ فرقہ عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے اور جب تعاون کی صورت میں ان کی طرف سے کسی قسم کی غرضِ فاسدبھی نہیں تو ان سے تعاون لینے اور تعمیرِ مسجد میں خرچ کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔
فی تفسير الألوسي روح المعاني : و ذكر بعضهم جواز الاستعانة بشرط الحاجة و الوثوق أما بدونهما فلا تجوز و على ذلك يحمل خبر عائشة ، و كذا ما رواه الضحاك عن ابن عباس في سبب النزول- و به يحصل الجمع بين أدلة المنع و أدلة الجواز ، على أن بعض المحققين ذكر أن الاستعانة المنهي عنها إنما هي استعانة الذليل بالعزيز و أما إذا كانت من باب استعانة العزيز بالذليل فقد أذن لنا بها اھ (2/ 116)۔
و فی الدر : ( و سببه إرادة محبوب النفس ) في الدنيا ببر الأحباب و في الآخرة بالثواب يعني بالنية من أهلها لأنه مباح بدليل صحته من الكافر اھ
و فی الشامية : بخلاف الوقف فإنه لا بد فيه من أن يكون في صورة القربة ، و هو معنى ما يأتي في قوله و يشترط أن يكون قربة في ذاته ؛ إذ لو اشترط كونه قربة حقيقة لم يصح من الكافر اھ (4/339)۔