کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ سرور شاہ اور خیر محمد نے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ ’’اگر کوئی شخص حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور ہتک آمیز کلمات کہے تو اس کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے‘‘؟ اس کے جواب میں ایسے شخص کے لئے کافر ہونے تک کا جواب دیا گیا، چنانچہ اس قسم کا جواب جاری ہونے کے بعد پھر اس فتویٰ لینے والے حضرات (سرور شاہ اور خیر محمد) نے اس سوال کو بدل دیا اور ایک شخص رجب علی نوشاد کو متعین کرکے اس کے بارے میں سوال بنایا کہ ’’رجب علی نوشاد لوگوں سے اپنا کلمہ پڑھنے کو کہتا ہے اور اسی شرط پر وہ لوگوں کو پلاٹ وغیرہ بھی دیتا ہے‘‘۔ جبکہ معاملہ اس کے خلاف ہے اور یہ محض بہتان تراشی ہے اور مذکور شخص کی ذات کو مجروح کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تو اس بارے میں آنجناب سے پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح فتویٰ حاصل کرکے پھر اس کے سوال کو بدل کر کسی خاص شخص کو خواہ مخواہ ذاتی ضد و عناد کی وجہ سے کفر تک کا نشانہ بنانا شرعاً کیسا ہے؟ اور اس طرح نبی کریم ﷺ کی مقدس ذات کو اپنی دنیوی اغراض کیلئے استعمال کرنے والے کی شرعاً کیا سزا ہے؟
جاننا چاہئے کہ شریعتِ مطہرہ نے معاشرۂ انسانی کی اصلاح کی خاطر ہر شخص کے دوسرے پر کچھ حقوق وآداب متعین فرمادئیے ہیں، اور ہر ایک کی عزتِ نفس کی خاطر بڑی کڑی قسم کی شرائط بیان فرمائیں ہیں، جنہیں پامال کرنا شریعتِ مطہرہ کی بیان کردہ حدود سے تجاوز ہے، جو بہرحال ناجائز ہے بلکہ شریعت نے ایسے متجاوز کے بارے میں حکومتِ وقت پر لازم قرار دیا ہے کہ ایسے مفسدین کو قرارِ واقعی اور عبرتناک سزا دے کر باقی معاشرہ کو ایسے شخص کے فساد سے پاک کرے۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ صورتِ مسئولہ میں مذکور شخص ’’مسمیٰ رجب علی نوشاد‘‘ سے اگر واقعۃً اس قسم کی کوئی گستاخی اور خلافِ شریعت بات صادر نہیں ہوئی، بلکہ آپ ﷺکی ذاتِ عالی کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتا ہے جو اہلِ سنت والجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ ’’آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخر نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا کافر ہے وغیرہ‘‘ تو جن لوگوں نے شخصِ مذکور کی شخصیت کو متاثر کرنے اور معاشرۂ انسانی میں بدنام کرنے کے لئے جو سازش اور پروپیگنڈہ کیا ہے ان کے خلاف عدالت سے رجوع کرے اور پھر عدالت واقعہ کی پوری تحقیق کے بعد ان پر ایسی عبرتناک تعزیر جاری کرے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ کوئی بھی اس قسم کی حرکت نہ کرے، اور انہیں چاہئے کہ شخصِ مذکور سے معذرت بھی کریں، اور آئندہ کیلئے اس قسم کی حرکتوں سےمکمل اجتناب کریں۔
فی الھندیۃ: والتعزیر الذی یجب حقا للعبد بالقذف ونحوہ فانہ لتوقفہ علی الدعوی لا یقیمہ الا الحاکم الا أن یحکما فیہ۔ اھـ (کذا فی فتح القدیر: ج۲، ص۱۶۷) ………………………………… واﷲ اعلم!