السلام علیکم! ! مفتی صاحب! میرے جہیز کا جتنا سونا ہے جو کہ نصاب میں آتا ہے، وہ میرے سسرال والوں کے قبضہ میں ہے، جو وہ مجھے دے نہیں رہے ہیں، اس پر میں زکوۃ دوں؟ میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ نہیں رہتی، آپ برائے مہربانی فتویٰ دیں۔
مذکور سونا اگر جہیز کے طور پر باقاعد ہ مالکانہ قبضہ کےساتھ سائلہ کو ملنے کے بعد سسرال والے اس پر قابض ہوئے ہوں تو وہ سائلہ کی ملکیت ہے، سائلہ کے سسرال والوں کی طرف سے اس پر قبضہ کر ناشر عاً جائز نہیں، تاہم اگر کسی طریقے سے اس سونے کا حصول ممکن ہو اورسائلہ اس سے نا امید نہ ہوئی ہو تو ایسی صورت میں سائلہ کے ذمہ اس سونے کی زکوۃ بھی لازم ہو گی، ورنہ نہیں۔
قال تعالى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾ [النساء: 29]
وفى المبسوط للسرخسي: وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «سباب المسلم فسق، وقتاله كفر، وحرمة ماله كحرمة نفسه» (إلی قوله) (فثبت) أن الفعل عدوان محرم في المال كهو في النفس؛ ولهذا يتعلق به المأثم في الآخرة كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى يوم القيامة من سبع أرضين» إلا إن المأثم عند قصد الفاعل مع العلم به. اھ (11/ 49)
وفي الفتاوى الهندية: لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى، ولو أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده؛ لأنه رشوة، كذا في البحر الرائق. وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك اھ (1/ 327)