(+92) 0317 1118263

زکوۃ و نصاب زکوۃ

پلاٹ خریدنے یا بیچنے کی نیت کرنے سے اس پر زکوۃ کا حکم

فتوی نمبر :
50053
| تاریخ :
2022-03-24
عبادات / زکوۃ و صدقات / زکوۃ و نصاب زکوۃ

پلاٹ خریدنے یا بیچنے کی نیت کرنے سے اس پر زکوۃ کا حکم

میں نے چھ (۶) سال پہلے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک آدمی سے پوری پیمنٹ دے کر پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اس پر اپنا گھر بناؤں گا، اس وجہ سے میں نے پہلے اس پلاٹ پر کوئی زکوۃ نہیں دی، لیکن تقریباً ۱۰ مہینے پہلے جب میں نے پلاٹ کا قبضہ لینے کے لیے اپلائی کیا تو مجھے بتایا گیا کہ جو پلاٹ دیکھ کر میں نے خریدا تھا، اب مجھے وہ نہیں ملے گا، اور اس کی جگہ کسی نئی جگہ پر پلاٹ دیا جائے گا، ابھی تک مجھے نیا پلاٹ الاٹ نہیں کیا گیا، اس مسئلے کی وجہ سے اب میری نیت یہ ہے کہ میں اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ نہیں رکھوں گا اور جیسے ہی نیا پلاٹ ملتا جائے گا تو اس کو فروخت کر دوں گا، اور کسی اور جگہ پر پلاٹ لے کر گھر بناؤں گا، اب کیا میں نے جتنے پیسے پلاٹ خریدنے کے لیے دیئے ہوئے ہے، ان پر اس سال زکوۃ دینی ہو گی ؟ یا کسی اور حساب سے اس پلاٹ کی مالیت پر کوئی زکوۃ کا نصاب بنتا ہے ؟ جزاک اللہ !

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

سوال میں ذکر کردہ وضاحت کے مطابق چونکہ سائل نے (۶) سال پہلے جو پلاٹ خریدا تھا وہ تجارت (آگے بیچنے ) کی نیت سے نہیں خرید اتھا، بلکہ رہائش اختیار کرنے کے لیے خریدا تھا، اس لیے سائل کے ذمہ اس پلاٹ کی زکوۃ بھی لازم نہیں تھی، اور اب اگر چہ سائل نے مذکور پلاٹ فروخت کرنے کی نیت کر لی ہے، لیکن جب تک پلاٹ فروخت نہیں ہو جاتا ، تب تک اس نیت کے باوجو د بھی سائل کے ذمہ اس پلاٹ کی مالیت پر ز کو لازم نہیں ہو گی۔

مأخَذُ الفَتوی

ففي الدر المختار: (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) (الى (قوله) (نام ولو تقديرا) (2/ 259)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله نام ولو تقديرا) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله - تعالى - كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه بحر اھ (2/ 263)
وفي الدر المختار: ولو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شيئا للقنية ناويا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه اھ (2/ 274)
وفي فتح القدير للكمال ابن الهمام: (ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر اھ (2/ 168)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
نعیم خان سید مست عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 50053کی تصدیق کریں
Related Fatawa متعلقه فتاوی
Related Topics متعلقه موضوعات