میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم سونے کے نصاب سے زکوۃ دیں اور چاندی کے نصاب سے زکوٰۃ نہ دیں تو کیا ہماری زکوۃ قبول نہیں ہوگی؟
اگر کسی شخص کے پاس خالص سونا یا خالص چاندی ہو، اس کے علاوہ اور کچھ نہ ہو تو ایسی صورت میں خالص سونے کی زکوۃ سونے کے نصاب کے مطابق اور خالص چاندی کی زکوۃ چاندی کے نصاب کے مطابق ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن اگر کسی کی ملکیت میں سونا چاندی دونوں موجود ہوں یا سونا اور چاندی کے ساتھ نقدی یا مال تجارت بھی اس کی ملکیت میں ہو تو ایسی صورت میں اگر نقدی کے ساتھ سونے چاندی یا مال تجارت کی مجموعہ قیمت چاندی کے نصاب ( ساڑھے باون تولے) کی مالیت تک پہنچی ہو تو سال گذرنے کے بعد اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃادا کرنا لازم ہوگا۔
فی النتف فی الفتاوی: شروطھا فی المال: النصاب: و اما التی فی المال إحدھا النصاب الکامل و نصاب الذھب عشرون مثقالا و نصاب الفضۃ مائتا درھم و نصاب متاع التجارۃ إذا بلغ قیمتہ مائتی درھم او عشرون مثقالا من الذھب۔اھ (ص:۱۰۹)۔
و فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 303)
(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة) وقالا بالأجزاء، فلو له مائة درهم وعشرة دنانير قيمتها مائة وأربعون تجب ستة عنده وخمسة عندهما۔ الخ
و فی بدائع الصنائع: و أما مقدار الواجب من ھذا النصاب فما ھو مقدارالواجب من نصاب الذھب و الفضۃ فکان الواجب فیہ ما ھو الواجب فی الذھب و الفضۃ و ھو ربع العشر، و لقول النبی- ﷺ -’’ ھاتوا ربع عشور أموالکم‘‘ من غیر فصل (۲/ ۲۱) و اللہ أعلم بالصواب