السلام علیکم!ميرا تعلق راولپنڈی سے ہے، میں نے يہ مسئلہ دريافت کرنا ہے کہ زکاۃ کتنے پیسوں پر فرض ہے، موجودہ حالات کے حساب سے؟
اور دوسرا ميرے پاس ساڑھے پانچ لاکھ روپے پڑے ہيں اور میں نے يہ رقم مکان تعمير کرنے کے ليے جمع کی ہے، کیونکہ ميں ابھی کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، کيا اس رقم پر مجھے زکواۃ دينی ہو گی؟ برائے مہربانی دين کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
واضح ہو کہ اگر کسی کی ملکیت میں نقد رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو سال گزرنے پر اس پر زکوۃ لازم ہو جاتی ہے، لہذا سائل کے پاس ساڑھے پانچ لاکھ کی رقم چونکہ نصاب سے بڑھ کر ہے، اس لیے اگر چہ مذکور رقم مکان کی تعمیر کیلیے جمع کی ہو، لیکن جب تک یہ رقم مکان کی تعمیر اور اس کی ضروریات میں خرچ نہ ہو تب تک اس رقم پر سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کر نا سائل پر لازم ہو گا۔
ففي سنن أبي داود: عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ببعض أول هذا الحديث، قال: «فإذا كانت لك مائتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء - يعني - في الذهب حتى يكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا، وحال عليها الحول، ففيها نصف دينار، فما زاد، فبحساب ذلك» اھ (2/ 100)
وفي الدر المختار: (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة اھ (2/ 267)
وفي حاشية ابن عابدين: أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، (إلی قوله) إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول اھ (2/ 262)