۱۔ میری والدہ کے پاس ۶.۵ تولہ سونا ہے ، اس کے علاوہ کچھ اور ان کی ملکیت میں نہیں ہے، آیا ان پر زکوۃ فرض ہے؟
۲۔ میری بیوی صاحب نصاب ہے، سونا کے علاوہ اس کے پاس ایک پلاٹ کی فائل ہے، جو اس نے گھر بنانے کی نیت سے لی ہے ، مگر پلاٹ کا قبضہ نہیں ملا، اور ابھی کچھ رقم باقی ہے، کیا ز کوۃ کی نصاب میں پلاٹ شامل ہو گا ؟
۳۔ میں نے ایک مکان لیا تھا، جس پر میں نے اپنے بھائی کو رہنے کی اجازت دی، جب تک کہ میں مکان فروخت نہ کر دوں، اب میرا بھائی گھر خالی کر رہا ہے، اور میں مکان فروخت نہیں کرنا چاہتا ہوں، میں مکان کرایہ پر دوں گا، کیا اس حالات میں مکان کی قیمت پر زکوۃ فرض ہے ؟
سائل کی والدہ کے پاس اگر ساڑھے چھ تولہ سونا کے ساتھ چاندی، نقدی اور مال تجارت میں سے بھی کچھ موجود ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچ جائے ، اور اس پر سال بھی گزر جائے، تو سالانہ ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ لازم ہو گی، ورنہ فقط ساڑھے چھ تولہ سونا پر زکوۃ لازم نہ ہو گی۔
جبکہ سائل کی بیوی نے جو پلاٹ گھر بنانے کی عرض سے خریدا ہے ، اسی طرح سائل کی ملکیت میں جو مکان موجود ہے، جس وہ کرایہ پر دینا چاہتا ہے اس کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں ہے۔
کما في الدر المختار: باب زكاة المال أل فيه للمعهود في حديث «هاتوا ربع عشر أموالكم» فإن المراد به غير السائمة لأن زكاتها غير مقدرة به. (نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة) دراهم اھ (2/ 295)
وفي حاشية ابن عابدين: (قوله: عشرون مثقالا) فما دون ذلك لا زكاة فيه ولو كان نقصانا يسيرا يدخل بين الوزنين؛ لأنه وقع الشك في كمال النصاب فلا حكم بكماله مع الشك بحر عن البدائع. (2/ 295)
وفى الدر المختار: (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه اھ (2/ 267)
وفی المبسوط للسرخسي: (قال) وليس في أقل من عشرين مثقالا من الذهب زكاة لحديث عمرو بن حزم قال: فيه «، وفي الذهب ما لم تبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه» والدينار كان مقوما بعشرة دراهم على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فذلك تنصيص على أنه لا شيء في الذهب حتى يبلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال اھ (2/ 190)
وفي الفتاوى الهندية: وللمعير أن يرجع فيها أطلق أو وقت، كذا في الوجيز للكردري. ولو استعار أرضا ليزرعها لم تؤخذ منه حتى يحصد الزرع استحسانا وقت أو لم يوقت اھ (4/ 370)