کیا میں فریج دینی مدرسہ کو زکوۃ کی مد میں دے سکتا ہوں؟
واضح ہو کہ زکوۃ کی رقم یازکوۃ کی رقم سے خریدی گئی اشیاء کسی مستحق زکوۃ شخص کو دیکر اسے اس کا با قاعدہ مالک بنانا ضروری ہے، محض مستحقین کے فائدے کے لیے کوئی چیز دینے سے زکوۃ اداء نہ ہوگی، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر فریج کسی دینی مدرسہ کو زکوۃ کی مد میں اس لیے دی جائے تا کہ مستحق زکوۃ طلباء اسے استعمال کریں، درست نہیں، اس سے زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ اداء نہ ہوگی، البتہ اگر تملیک شرعی کے بعد مدرسہ کے استعمال میں لایا جائے، تو ایسا کر نا دست ہو گا، اور ایسی صورت میں زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ بھی اداء ہو جائے گی۔
کما في الفتاوى الهندية: أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - (1/ 170)
وفي حاشية ابن عابدين: يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء رواجا وإلا يؤد من كل منهما ربع عشره اھ (2/ 303)
وفى حجة الله البالغة: وعن ابن عباس يعتق من زكاة ماله ويعطي في الحج، وعن الحسن مثله ثم تلا {إنما الصدقات للفقراء} في أيها أعطيت أجزأت، وعن أبي الآس حملنا النبي صلى الله عليه وسلم على إبل الصدقة للحج. وفي الصحيح " وأما خالد فأنكم تظلمون خالدا وقد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله " وفيه شيئآن: جواز أن يعطي مكان شيء شيئا إذا كان أنفع للفقراء، وأن الحبس مجزئ عن الصدقة اھ (2/ 69)