السلام علیکم! حضرت زکوۃکے سلسلے میں کچھ سوالات ہیں:
۱۔ میرے پاس کچھ زیورات ہیں، اس کی زکوۃ قیمت خرید پر ہو گی یا قیمت فروخت پر؟
۲۔ میں نے ایک مکان ۶ ماہ پہلے فروخت کی ہے، تاکہ کوئی دوسرا خرید سکوں، لیکن وہ ابھی تک نہیں خرید سکا کیا ان پیسوں کی زکوۃ مجھے دینی ہے اور اگر دینی تو کب ایک سال ہونے کے بعد یا ابھی؟ شکریہ! محمد عثمان
مذکور زیورات کی وجہ سے سائل اگر صاحب نصاب ہو تو ان زیورات کی قیمت فروخت معلوم کر کے اس کے مطابق اور جو رقم مکان فروخت کر کے حاصل ہوئی ہے، اس کو بھی اس نصاب میں شامل کر کے زکوۃ کی تاریخ پر دونوں کی زکوۃ ادا کر نا سائل پر لازم ہے۔
ففي بدائع الصنائع: وقال إمام الهدى الشيخ أبو منصور الماتريدي السمرقندي: " إنه يجب تحصيل الفعل على الفور " وهو الفعل في أول أوقات الإمكان ولكن عملا لا اعتقادا على طريق التعيين بل مع الاعتقاد المبهم أن ما أراد الله به من الفور والتراخي فهو حق وهذه من مسائل أصول الفقه. (2/ 3)
وفي تبيين الحقائق: فإن المختار في الأصول أن مطلق الأمر لا يقتضي الفور ولا التراخي بل مجرد طلب المأمور به فيجوز للمكلف كل من التراخي والفور في الامتثال؛ لأنه لم يطلب منه الفعل مقيدا بأحدهما فيبقى على خياره في المباح الأصلي، والوجه المختار أن الأمر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور، وهي أنه لدفع حاجته، وهي معجلة فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الإيجاب على وجه التمام اھ (1/ 250)
وفي الفتاوى الهندية: وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز. حتى لو ملك مائة درهم خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكاة اھ (1/ 179)