السلام عليكم جناب مفتی صاحب مجھے اب سے زکوۃ کے بارے میں مسئلہ معلوم کرنا ہے ہم دونوں میاں بیوی نے اپنی اولاد نہ ہونے کے باعث ایک بچی اپنے رشتہ داروں سے adopt کی ہے ،جیسا کہ اب اس بچے کی ذمہ داری تمام تر ہم پر ہے، چاہے وہ کپڑے بنانا ہو اسکول کا خرچہ ہو کالج کا خرچہ ہو شادی بیا کا خرچہ ہو کھانے پینے کا خرچہ ہو، اسکول وین کا خرچہ ہو اور تمام چیزوں کا خرچہ ہمارے ذمے ہے اور اسلامی احکامات کے مطابق ڈھائی پرسنٹ زکوة ہر حال میں نکالنی ہے،اب جب کہ ملک میں مہنگائی کا جو عالم ہے اس کی وجہ سے ہر شخص بہت پریشان ہے جیسا که اسلامی احکامات ہیں کہ زکوة اپنے رشتہ داروں میں دی جا سکتی ہے تو کیا ہم اس بچی کے تمام تر اخراجات کھانے پینے کے علاوہ چاہیے وہ کالج کے ہوں ٹیوشن کے ہوں شادی بیاہ کے ہو اس کے اپنی ذاتی اخراجات خرچ ہوں وہ سب کے سب ہم اپنی زکوۃ میں سے اس بچی پر خرچ کر سکتے ہیں ہم نے اس بچی کو ابھی عمرہ بھی کروایا ہے اور آگے تعلیمی اخراجات یا اسے ڈاکٹر بنانے کے لیے تیاری کر رہے ہیں تاکہ اچھی تعلیم حاصل کر سکے اور معاشرے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے ویسے ہم اپنی زکوۃ اپنے آس پاس کے رشتہ داروں میں تو دیتے ہی ہیں لیکن ا ب ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا وہ تمام اخراجات ہم اس بچی پر خرچ کر لیں تاکہ اس کو بھی تمام چیزیں میسر ہو جائیں، اور ہمارے اوپر غیر ضروری بوجھ بهی نہ پڑےاور اسلامی حکم بھی پورا ہو جائے،برائے مہربانی مجھے مخلصانہ مشورہ دے کر میرے اس مسئلہ کو حل فرمائیے۔
واضح ہو کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے تملیک (یعنی کسی مستحق شخص کو ما لک بنانا ) شرط ہے ،لہذا مذکور بچی کی ملکیت میں اگر ضروریات اصلیہ سے زائد کوئی چیز بقدر نصاب ( ساڑھے با ون تولہ چاندی کی مالیت ) موجود نہ ہو اور وہ سیدہ بھی نہ ہو ،اور مذکور بچی عاقل اور سمجھدار بھی ہو ،تو سائل کیلئے باقاعدہ مالکانہ قبضہ کے ساتھ مذکور بچی کو زکوٰۃ کی رقم دینا بلا شبہ جائز اور درست ہے ،اور مذکور بچی کیلئے زکوٰۃ کی رقم لینے کے بعد اسے اپنی تعلیم کھانے ،پینے وغیرہ ،دیگر اخراجات میں صرف کرنا جائز اور درست ہو گا ،البتہ مذکور بچی کو زکوٰۃ کی رقم پر باقاعدہ مالکانہ قبضہ دیئے بغیر ،اس کی شادی اور تعلیم وغیرہ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کر دینے سے سائل کی زکوٰۃ ادا نہ ہو گی
ی الشامیۃ :(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط اھ(2/344)
وفیہ ایضاً :(قوله: بشرط أن يعقل القبض) قيد في الدفع والكسوة كليهما ح. وفسره في الفتح وغيره بالذي لا يرمي به، ولا يخدع عنه، فإن لم يكن عاقلا فقبض عنه أبوه أو وصيه أو من يعوله قريبا أو أجنبيا، أو ملتقطه صح اھ (2/257)